Sunday , December 22 2024
enhindiurdu

ملنے کے نہیں… نایاب ہیں ہم!

سچ تو مگر کہنے دو !
ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز

اگرچہ کہ یہ کووڈ کا دور نہیں‘ مگر جس تیزی سے اہم شخصیات کے دارِ فانی سے کوچ کرنے کی اطلاعات مل رہی ہیں‘ اس نے کووڈ کی یاد تازہ کردی۔ سلسلہ ظہیرالدین علی خاں سے شروع ہوا اور گزشتہ ایک ہفتہ کے دوران انٹرنیشنل فٹبال کھلاڑی محمد حبیب، نصر اسکول کی بانی محترمہ بیگم انیس خاں، کیپٹن سلطان بخش اور سابق امیر جماعت اسلامی سید عبدالباسط انور یکے بعد دیگر اللہ کو پیارے ہوگئے۔ ظہیر صاحب کا ذکر تو گزشتہ ہفتہ ہوچکا ہے۔ تلنگانہ ابھی تک ان کے صدمہ سے سنبھل نہیں سکا‘ ان کے بعد انہی کی راہ پر گامزن ہستیوں کا جہاں تک تعلق ہے‘ ہر ایک ہستی اپنی جگہ ایک ادارہ اور ایک تحریک تھی۔ جناب باسط انور جماعت اسلامی کے ایک ایسے کارکن اور عہدیدار جنہوں نے تین نسلوں کو اپنے تعلیمات، ظرف اور کردار سے متاثر کیا۔ 1982ء میں وہ اسٹوڈنٹس اسلامک یونین SIU آندھراپردیش کے صدر تھے اور راقم الحروف مشیرآباد یونٹ کا صدر تھا۔ تب سے لے کر ان کے آخری ایام تک ان سے روابط رہے۔ وادی ہدیٰ میں پندرہویں صدی ہجری کے استقبال کے لئے جو تاریخ ساز اجتماع ہوا تھا تب ایس آئی یو کے ایک کارکن کی حیثیت سے ہم نے انوارالعلوم کالج کے طلبہ کو اجتماع گاہ تک لانے میں اہم رول ادا کیا گیا۔ 40برس بعد اسی وادیئ ہدیٰ میں جب ”اے بنت حرم جاگ ذرا“ کے عنوان سے اجتماع ہوا تھا تب وہ جماعت اسلامی کے امیر تھے تب ہم نے گواہ کا ایک خصوصی نمبر شائع کیا تھا اور مضمون ”وادی ہدیٰ سے وادیئ ہدیٰ تک“ شائع کیا تھا اور جناب باسط انور کا انٹرویو بھی شائع کیا تھا۔ جناب باسط انور کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ رہا کرتی تھی۔ ان کا لہجہ نہایت شگفتہ اور دھیما ہوا کرتا تھا۔ 40برس کے دوران اَن گنت ملاقاتیں ہوئیں‘ بعض معاملات میں نظریاتی اختلافات بھی رہا۔ مگر باسط صاحب اس اختلاف کو بہت ہی خوبی کے ساتھ ختم کردیتے تھے۔ ان کی زندگی تبلیغ دین کے لئے وقف تھی۔ اور ان کا آخری سفر بھی قابل رشک رہا۔ 16/اگست 2023ء کو ملک پیٹ کے سفائر فنکشن ہال میں جماعت اسلامی کے کیڈرمیٹ میں انہوں نے درس قرآن دیا۔ چائے کا وقفہ ہوا، اس دوران ان کی طبیعت بگڑی‘ ہاسپٹل لے جائے گئے اور ان کا بے روح جسد خاکی گھر لایا گیا۔ (انا للہ وانا الیہ راجعون)۔
جناب باسط انور کے شخصی کردار سے متاثر ہوکر کئی نوجوان ایس آئی یو میں شامل ہوئے جو بعد میں ایس آئی او ہوگئی۔ جماعت اسلامی سے بہت سے لوگوں کو نظریاتی اختلاف ہوسکتا ہے مگر جماعت اسلامی کی یہی ایک خوبی ہے کہ وہ اختلافات کو نظرانداز کرکے اپنی بات پہنچانے اور بڑی حد تک منوانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ اس لئے کہ جو بات وہ پہنچاتے ہیں وہ ان کی ذاتی مفاد کے لئے نہیں ہوتی‘ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا کے لئے ہوتی ہے۔ 17/اگست کو جامع مسجد دارالشفاء میں نماز جنازہ میں ریکارڈ تعداد لوگ شریک رہے۔ تلنگانہ، مہاراشٹرا، کرناٹک کے علاقوں سے بھی لوگ نماز جنازہ میں شرکت اور ان کی آخری دیدار کیلئے جوق درجوق حیدرآباد آئے تھے۔ اللہ رب العزت ان کے درجات کو بلند کرے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔
نصر اسکول کی بانی پرنسپال اور نصر ایجوکیشن سوسائٹی کی صدر نشین محترمہ بیگم انیس خاں کا انتقال یقینا تعلیمی شعبے میں ایک بڑا نقصان ہے۔ جب کبھی حیدرآباد میں مسلمانوں کی تعلیم سے متعلق ذکر آتا ہے یا جب کوئی تاریخ لکھی جائے گی‘ اس میں جناب کے ایم عارف الدین، ڈاکٹر وزارت رسول خاں کے علاوہ بیگم انیس خاں کا نام یقینی طور پر شامل رہے گا۔ انہوں نے ایک ایسے دور میں اعلیٰ معیاری تعلیم کو عام کیا جب تعلیمی شعبہ کرسچن مشنریز کے قبضے میں تھا۔ کے ایم عارف الدین نے اگر مسلم مینجمنٹ کے تحت پہلا مسلم پبلک اسکول قائم کیا جس کے بعد کئی مسلم اسکولس کے قیام کا سلسلہ چل پڑا تو اس سے بہت پہلے بیگم انیس خاں صاحبہ نے نصر پری اسکول کی بنیاد ڈالی تھی۔
محترمہ بیگم انیس خاں 16/اگست 2023ء کو اللہ کو پیاری ہوگئیں۔ تعلیمی اداروں میں صف ماتم سی بچھ گئی۔ اگرچہ کہ ان تعلیمی اداروں سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ ہزاروں موجودہ اور ملک و بیرون ملک میں مقیم ہزارو طلباء وطالبات کو محسوس ہوا جیسے ان کے سر سے گھنی چھاؤں کا سایہ ہٹ گیا۔ انہیں ایک قسم کی یتیمی کا احساس ہوا کیوں کہ بیگم انیس خاں ان کے لئے ماں سے کم نہیں تھیں۔ ان کی سختی اپنی جگہ مگر ان کی شفقت کو آج بھی یاد کی جاتی ہے۔نصر اسکول کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ یہ مسلم اقلیتی انتظامیہ کی جانب سے دونوں شہروں حیدرآباد وسکندرآباد میں چلائے جانے والے تعلیمی اداروں میں سب سے بہتر اور اعلیٰ معیار کا اسکول ہے تو ممکن ہے کہ دیگر اداروں کے اراکین انتظامیہ کو گراں ضرور گزرے گا، مگر وہ خود بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے۔
نصر اسکول کی عمارتیں ہی شاندار نہیں ہیں بلکہ اس کی تعلیمی معیاربلند ہے اور طالبات کے کردار سازی اور انہیں زندگی کے ہر ایک شعبہ سے آشنا کرنے کیلئے اسکول کے انتظامیہ کا رول منفرد ہے
یہ اسکول بیگم انیس خان کی 58 سالہ ان تھک کاوشوں کا ثمر ہے، بیگم انیس خان جنرل سر افسرالملک کی پڑنواسی تھیں،جبکہ آپ حیدرآباد کے ایک باوقار معزز نوابی گھرانے کے چشم و چراغ تھیں۔ نواب مظفر حسین خان سے بیاہی گئیں جنہوں نے تعلیم نسواں کے ذریعہ دختران قوم وملت کو اطاعت گزار بیٹی، وفاشعار وسلیقہ مند بیوی اور فرض شناس ماں بنانے کے مشن میں تعاون کیا۔
بیگم انیس خان نے شادی کے کئی سال بعد تعلیم سے دوبارہ رشتہ جوڑا، گریجویشن پورے امتیازات و اعزازات کے ساتھ تکمیل کی۔ بی اے کے امتحان میں عثمانیہ یونیورسٹی میں انہوں نے ٹاپ کرتے ہوئے گولڈ میڈل حاصل کیا۔ جس کے بعد انہوں نے ایم اے کی تکمیل کی۔1965 میں جب ان کی صاحبزادی عالیہ اسکول جانے کے قابل ہوگئیں تو بیگم انیس خان نے پری اسکول کی بنیاد ڈالی، اس طرح 12جون 1965 کو نصر اسکول کا تین ٹیچرس اور بارہ طلباء وطالبات کے ساتھ آغاز ہوا۔ بیگم خان کے والد جناب سید جلال الدین حسین اور ان کی ایک امریکی دوست مسز ڈوناحسین ان کیلئے سرچشمہ وجدان ثابت ہوئے۔ مسز ڈونا حسین کی ایما ء اور دعوت پر بیگم خان نے امریکہ سے ایم ایڈ کی تکمیل کی۔امریکہ سے وہ ماسٹرس کی ڈگری کے ساتھ ساتھ تجربات کی دولت بھی ساتھ لائیں، چنانچہ نصر اسکول کے ہر ایک شعبہ اور ہر ایک گوشہ میں تجربہ کی دولت پہناں ہے۔
نصر اسکول نے 58سال کے دوران لمحہ بہ لمحہ ترقی کی منازل طے کیں، پری اسکول سے پرائمری اسکول اور پھر ہائی اسکول تک پہنچنے کے لئے بیگم خان کی زیر نگرانی اسکول انتظامیہ نے غیر معمولی جدوجہد کی۔ ”خوشنما“ عمارتوں میں واقع نصر گرلز اسکول نصر بوائز اسکول اور نصر پری پرائمری اسکولس اپنے تعلیمی معیار ”ڈسپلن“، اور تعلیمی، ثقافتی پرگراموں اور کمیٹی اینڈ اسپورٹس کے میدان میں غیر معمولی کارکرگردی کی بدولت ہندوستان بھر میں مشہور ہیں۔ یہ کے فارغ التحصیل طلباء و طالبات پر اگر قوم کو ناز ہے تو ان طلباء کو اپنے اسکول پر ناز ہے
اسکول کا MOTTO نصر من اللہ فتح قریب،اس کے بیاچ میں نظر آئے گا۔ یہ بیاچ ہر طالبہ کیلئے لازمی ہے، خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب سے کیوں نہ ہو۔
حیدرآباد کے مایہ ناز کیپٹن سلطان بخش جنہو ں نے مسلسل 62برس تک ایک پائلٹ کی حیثیت سے لگ بھگ چالیس ہزار گھنٹے پرواز کی اور کئی صدور اور وزرائے اعظم اور اہم شخصیات کے ساتھ پرواز کی 16/اگست کو انتقال کرگئے۔ وہ بوئنگ کمپنی ساؤتھ کوریا کے ڈائرکٹر آف مشن بھی رہے۔ انہو ں نے سینکڑوں پائلٹس کیلئے ٹریننگ سیشن کا اہتمام کیا ان کی زندگی خطرات سے بھرپور رہی ہے۔ کبھی دطوفان میں گھرے کبھی ٹکیکی خرابی کی وجسہ کبھی صحرا میں تو کبھی جنگلات میں ا یمرجنسی لینڈنگ کی مگر اپنے پیشہ سے محبت کی تھی کہ کسی نہ کسی طرح سے اس سے وابستہ رہے۔ آخری ایام میں وہ پرواز کے شوقین یا پاپلٹ کے طور پر پیشہ اختیار کرنے والے نوجوانوں کی رہنمائی کیا کرتے تھے
جناب محمد حبیب حیدرآباد کے ایک ایسے عظیم فرزند ہیں جنہوں نے ایک فٹبال کھلاڑی کی حیثیت سے عالمی سطح پر حیدرآباد کے ساتھ ساتھ ہندوستان کا نام روشن کیا۔ ان کا پورا گھرانہ کھلاڑیوں کیلئے جانا جاتا ہے۔ محمداعظم انٹرنیشنل فٹبال ریفری رہ چکے۔ محمد حبیب کے چھوٹے بھائی اکبر بھی انٹرنیشنل فٹبال کھلاڑی رہے ہیں محمدحبیب نے 1960ء سے 1980ء کے دہے تک اپنے کھیل سے ساری دنیا کو اپنا گرویدہ بنائے رکھا تھا۔ انہیں یہ اعزاز ہے کہ کولکتہ کے تینوں بڑے فٹبال کلبس موہن بگان، ایسٹ بگان اور محمڈن اسپورٹنگ کیلئے انہوں نے کھیلا۔ ہندوستانی فٹبال ٹیم کے بہترین فا رورڈ رہے اور ٹیم کی قیادت بھی کی۔ 1997ء میں ایک نمائشی میاچ میں انہیں صدی کے عظیم فٹبال کھلاڑی PELE کی ٹیم کے خلاف گول کرنے کا اعزاز حاصل ہوا اور جب یہ نمائشی مقابلہ دودو گول سے برابری پر ختم ہوا تو Pele نے محمدحبیب کے کھیل کی تعریف کی۔ ارجن ایوارڈ یافتہ محمدحبیب کو بھارت گورو ایوارڈ حکومت بنگال کی جانب سے ”بنگا بی بھوشن“ایوارڈ دیا گیا۔ ہندوستان کی ٹیم کے فارورڈ کھلاڑی کی حیثیت سے 1970میں ایشین گیمس میں حصہ لیا اورٹیم کو براؤنز میڈل دلانے میں اہم رول ادا کیا۔ مرڈیکا ٹورنمنٹ میں بھی ہندوستان کو تیسرے تک لانے میں اہم رول ا دا کیا۔ 1969ء میں سنتوش ٹرافی نیشنل ٹورنمنٹ میں 11گول بناکر وہ ٹاپ اسکورر رہے اور بنگال کو سنتوش ٹرافی دلائی۔ 1970 اور 1974 میں ایسٹ بنگال کو آئی ایف اے شیلڈ، 1980-81ء میں فیڈریشن کپ، 1978-79ء میں موہن بنگال کو فیڈریشن کپ چمپئن بنانے میں محمدحبیب نے بہت اہم رول ادا کیا تھا۔ محمد حبیب اُس دور کے کھلاڑی ہیں جب فٹبال کرکٹ سے زیادہ مقبول تھا۔ اور خود حیدرآباد فٹبال کے لئے ساری دنیا میں مشہور تھا۔ ہندوستانی ٹیم میں کبھی سات کھلاڑی حیدرآباد کے ہوا کرتے تھے۔ سیاست ذاتی مفادات نے حیدرآباد سے فٹبال کا جنازہ نکال دیا۔ جو اچھے کھلاڑی تھے انہوں نے حیدرآباد سے باہر نکل کر اپنی صلاحیتوں سے عالمی سطح پر اپنا مقام پیدا کیا۔ محمدحبیب کا 74برس کی عمر میں انتقال ہوا۔ فٹبال کی تاریخ میں ہمیشہ وہ یاد رکھے جائیں گے۔ حکومت تلنگانہ کو بھی چاہئے کہ وہ تلنگانہ کے اس عظیم بیٹے کو بعد از مرگ ہی سہی‘ کسی اعزاز سے نوازے۔

ملنے کے نہیں… نایاب ہیں ہم!

About Gawah News Desk

Check Also

میرے درد کی تجھے کیا خبر!

فیاض کی اچانک موت نے جانے کیوں مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اس کے کئی …

اُف… وہ انٹرویوز!

ڈاکٹر سیدفاضل حسسیں پرویزصحافت اور انٹرویوز ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ تاریخ …

Leave a Reply