سچ تو مگر کہنے دو !
ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز
چاند پر پہنچ گئے۔ سورج کی سمت پرواز کرنی ہے۔ ہندوستان کا آدتیہL1 مشن 2/ستمبر کو سری ہری کوٹہ سے سورج کی سمت روانہ ہوگا جو لاگ رینج پوائنٹ1 کے اطراف مدار میں چکر لگائے گا۔ لاگ رینج پوائنٹ زمین اور سورج کے درمیان وہ جگہ ہے جہاں سے سورج کو گرہن یا کسی بھی قسم کی رکاوٹ کے بغیر دیکھا جاسکتا ہے۔ جملہ پانچ لاگ رینج پوائنٹس ہیں‘ زمین سے اس کا فاصلہ ڈیڑھ ملین کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ سورج کی روشنی تین لاکھ کلو میٹر فی سکینڈ کی رفتار سے زمین تک 8منٹ 20سکینڈ میں پہنچتی ہے۔ ناسا کالسٹک میں جیٹ پروپلزن لیباریٹری کے سائنسداں اور آئی آئی ٹی اندور کے پروفیسر ڈاکٹر یوگیشور ناتھ مشرا کے مطابق لاگ رینج پوائنٹ پر کشش ثقیل کا اثر کم ہوتا ہے۔ سٹیلائٹ کے یہ مناسب جگہ ہے‘ سٹیلائٹ یہاں مدار میں آسانی سے چکر لگاتا رہے گا۔
اسرو کا 400کروڑ کی لاگت کا یہ پراجکٹ دنیا کا چوتھا پراجکٹ ہے جو شمسی مطالعہ کی غرض سے روانہ کیا جارہا ہے۔ آدتیہL1 سورج کا Photosphere یعنی وہ حصہ جسے ہم دیکھتے ہیں‘ بیرونی ماحول کا کرومواسفیر یعنی فوٹواسفیر کے بالکل اوپر سورج کی دکھائی دینے والی سطح‘ کرونا سورج کا ہالہ یا سورج سے چند ہزار کلومیٹر اوپر کی بیرونی تہہ‘ جو شدید گرم مہین ہائیڈروجن گیاس پر مشتمل ہے‘ اس کا مقناطیسی میدان کا مشاہدہ کرے گا۔
پولارسٹیلائٹ لانچ وہیکل PSLV سے آدتیہL1 کے ساتھ سات پے لوڈ ہوں گے ان میں سے چار سورج کی نگرانی کریں گے اور تین لاگ رینج1 پر ذرات اور دیگر اجزاء کی نگرانی کریں گے۔ پے لوڈ خلا میں مطالعہ کے لئے لے جانے والے آلات کو کہتے ہیں۔
چندرایان3 مشن کامیاب رہا۔ چاند کے قطب جنوبی پر کامیاب لینڈنگ نے ہندوستان کو خلائی سائنس اینڈ ٹکنالوجی میں کافی آگے کردیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا سورج پر پہنچنے کا خواب پورا ہوگا؟
سورج نظام شمسی کا ایک روشن ستارہ بھی ہے اور اس کا مرکز بھی۔ زمین اور دیگر سیارے اور دوسرے اجسام سورج ہی کے گرد گردش کرتے ہیں۔ نظام شمسی کے سیاروں کی کل تعداد 9 ہیں اور وہ سب کے سب سورج کے گرد بیضوی مدار میں گردش کررہے ہیں۔ ان سیاروں کے نام عطارد، زہرہ، زمین، مریخ، مشتری، زحل، یورینس، نپچون اور پلوٹو ہیں جبکہ 1992ء میں پلوٹو سے آگے ایک اور سیارہ کے بارے میں انکشاف ہوا تھا جس کا نام ’QB1‘ رکھا گیا جس کا سورج سے فاصلہ 8ارب 80کروڑ میٹر ہے۔ وکی پیڈیا کے مطابق سورج سے زمین کا درمیانی فاصلہ تقریباً 14کروڑ 95لاکھ 96ہزار کلو میٹر ہے۔ انگریزی میں Sun یونانی دیوتا SOLA کے نام پر رکھا گیا۔ سولار اسی سے نکلا ہے۔ ماہر فلکیات کے مطابق سورج کی عمر ساڑھے چار ارب سال بتائی جاتی ہے اس کی طرح ملکی وے گیالکسی میں 100بلین سے زائد سیارے موجود ہیں۔ تاہم سورج ہمارے شمسی نظام یا سولار سسٹم کا 99.86 فیصد ہے جس کا قطر 13لاکھ 92ہزار 684کلومیٹر اور خط استوا پر اس کی گولائی 43لاکھ 70ہزار کلو میٹر کے لگ بھگ ہے۔ دس لاکھ سے زائد زمینیں سورج کے اندر سما سکتی ہے۔ سورج 220کلو میٹر فی سکینڈ کی ر فتار سے گردش میں ہے۔ اسے ملکی وے گیالکسی سے اپنا ایک چکر مکمل کرنے کے لئے لگ بھگ 250 ملین سال درکار ہوتے ہیں‘ سورج کے مرکز کا درجہ حرارت 15ملین ڈگری سینٹی گریڈ اور بیرونی سطح کا درجہ حرارت 5700 ڈگری سینٹی گریڈ ہوسکتا ہے جبکہ زمین کا اوسطاً درجہ حرارت 17درجہ سینٹی گریڈ ہوتا ہے۔ سورج ہر سکینڈ میں اتنی توانائی کا اخراج کرتا ہے جتنی انسانوں نے گزشتہ دس ہزار سالوں میں بھی استعمال نہیں کی۔ اگر سورج نہ ہو تو زمین ایک سیدھی قطار میں سفر کرنا شروع کردے گی۔ زمین پر زندگی کی بقاء سورج ہے۔ اس کے بغیر انسان اور جانور، درخت زندہ نہیں رہ سکتے۔ سورج سے دھوپ کی شکل میں زمین پر پہنچنے والی توانائی زمین پر موسموں کی تشکیل کا سبب بنتی ہے۔ حالیہ عرصہ کے دوران سائنسدانوں نے یہ پتہ چلایا ہے کہ سورج پر شمسی طوفانوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔ ماضی میں جب کبھی بھی سورج پر شمسی طوفان آنا بند یا کم ہوجاتے تھے تو دنیا سردی کی لپیٹ میں آجاتی تھی۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق سورج پر شمسی طوفانوں کے کم ہوجانے کی وجہ سے دنیا پر اس کا غیر معمولی اثر ہوسکتا ہے۔ فی الحال سورج پر ایک غیر معمولی قسم کا ٹھہراؤ ہے اور وہ سرگرمی نہیں ہے جو عام طور پر ہونا چاہئے۔ سورج کی سطح پر دھبوں کی تعداد سائنسدانوں کی توقعات سے کم ہے اور سورج کی سطح پر بلند ہونے والے شعلے توقعات سے زیادہ ہیں۔ پروفیسر رچرڈ ہیریسن کے مطابق 17ویں صدی میں کئی دہائیوں تک سورج کی سطح پر پیدا ہونے والے دھبے غائب ہوگئے تھے جس کی وجہ سے کرہئ شمالی میں شدید سردی کی وجہ سے لندن کا دریا ٹیمز منجمد ہوگیا تھا اس دور کی پینٹنگ سے پتہ چلتا ہے کہ منجمد دریا ٹیمز پر سرمائی بازار لگا کرتے تھے۔ ڈاکٹر لوسی گرین کے مطابق سورج پر ہونے والی سرگرمیوں‘ اس کے اُتار چڑھاؤ کا چار سو سالہ ریکارڈ موجود ہے۔ یہ بات طے ہے کہ سورج پر سرگرمی میں تیزی سے کمی واقع ہورہی ہے۔
بی بی سی کے نامہ نگار جوناتھن ا یموس نے 17/جولائی 2020ء کو اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کہ سورج کے برتاؤ سے متعلق مشاہدے کیلئے یوروپی اسپیس ایجنسی نے فروری 2020ء میں کیاپ کینیورل اسٹیشن سے ایک راکٹ کے ذریعہ سٹیلائٹ بھیجا تھا۔ جس نے سورج کی سطح سے 7کروڑ 70لاکھ کلومیٹر کے فاصلے سے تصاویر کھینچی تھی جس سے اس کے اُتار چڑھاؤ کا اندازہ ہوا تھا
ہندوستان کا آدتیہL1 سورج سے متعلق معلومات حاصل کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوگا یہ آنے والا وقت بتائے گا۔ چندرایان3 کی کامیابی کے بعد بہت ساری امیدیں وابستہ ہوچکی ہیں۔ آدتیہ مشن سے بھی اچھی امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں تاہم چاند کی تسخیر کے فوری بعد یہ خبر سامنے آئی تھی کہ چندرایان کی کامیابی میں حصہ لینے ولے سائنسدان گزشتہ 8ماہ سے تنخواہوں سے محروم ہیں۔ یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے‘ سورج سے متعلق معلومات حاصل کرنے میں اگر ہم کامیاب ہوجاتے ہیں تو واقعی سوپر پاورس کی صف میں آسکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم چاند سورج ستاروں کی بات کررہے ہیں۔ ہم نے زمین کو کیوں فراموش کردیا ہے جس پر ہم رہتے، بستے ہیں۔ ایک طرف چندرایان3 کی کامیابی پر ہم جشن منارہے ہیں تو وہیں مظفرنگر کے اسکول کی ٹیچر تیاگی کی کمسن مسلم بچے کے ساتھ فرقہ پرستی کی شرمناک حرکت پر ماتم کررہے ہیں۔ اس بات بھی حیرت کا اظاہر کیا جارہے کہ پیشہ تدریس کے تقدس کو پامال کرنے والی ٹیچر تیاگی کے خلاف کاروائی کرنے کے بجائے اس کے ناقابل معافی جرم کو منظر عام پر لانے والوں کے خلاف ایف آئی آر درج کیا جارہا ہے۔
دارالحکومت دہلی میں سرکاری اسکول کی ٹیچر مسلم طلبہ کو یہ احساس دلاتی ہیں کہ وہ ملک کے وفادار نہیں ہے‘ ان کا مقام پاکستان ہیں۔ اس ہیماگولاٹی نامی ٹیچرس کو جو یقینی طور پر سنگھ پریوار کے قبیلے سے تعلق رکھتی ہوں گی اسے شاید یہ نہیں معلوم کہ چندرایان3کی کامیابی پر اگر ہم جشن منارہے ہیں تو اس کا سہرا ان مسلم سائنسدانوں کے سر بھی جاتا ہے جو اس پراجکٹ کا ایک حصہ رہے ہیں۔ ان فرقہ پرستوں کے درمیان نیرج چوپڑا اور ان کی والدہ بھی ہیں‘ جو سیکولرزم کی زندہ تصویر ہیں‘ اس ماں کو سلام جس نے فرقہ پرست صحافی کے پاکستان کے متعلق سوال کا منہ توڑ جواب دیا۔ ایسی ماں کو سلام ہم آسمان کی بلندیوں میں اڑنے کے قائل ہیں‘ مگر اپنے قدم زمین پر رکھنے پر یقین رکھتے ہیں۔ ہم سورج، چاندر ستاروں کی روشنی کو دیکھ رہے ہیں جس کی وجہ سے ہمیں زمین کے اندھیرے نظر نہیں آرہے ہیں۔ ایک طرف سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں ہماری کامیابی پر دنیا مبارکباد دے رہی ہے تو دوسری طرف ملک میں بڑھتے ہوئے فرقہ پرست ماحول پر انگلیاں بھی اٹھارہی ہیں۔
یقینا ہمیں سائنس و ٹکنالوجی کی ترقی کے لئے جتنی چاہے دولت خرچ کرنے کا حق اور اختیار ہے‘ تاہم اس دولت کے حقدار وہ بھی ہیں جنہیں اپنی ہی سرزمین پردو وقت کی روٹی، پینے کا صاف پانی، معیاری تعلیم، رہنے کوگھر نہیں ہے۔ ستاروں پر کمندیں ڈالنے والے زمین پر فرقہ پرستی کا ماحول پیدا کرنے والوں کو لگام ڈالنے کیوں ناکام ہیں۔یہ سوال اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہے۔
سورج، چاند، تارے یہ سب اللہ رب عزت کی تخلیق ہیں۔ جن کے بغیر کائنات کا نظام ممکن نہیں۔ سورج کی روشنی صحت کے لئے ضروری ہے۔ اس کی دھوپ وٹامن ڈی کی کمی پوری کرتی ہے۔ بچوں کو اپاہج اور کمزور بننے سے روکتی ہے۔ بڑوں کو نئی طاقت اور توانائی دیتی ہے یہ نہ ہوں تو فصلیں نہ ہوں۔ اور اس کے بغیرجینے کا تصور ہی کیا۔ ترقی، تدبر، تحقیق انسان کے لئے لازم ہے۔ ساتھ ہی انسانیت کا بقا کے لئے اقدامات بھی ضروری ہیں۔
ڈھونڈنے والا ستاروں کے گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کرنہ سکا
(نوٹ: اس مضمون کی تیاری میں اردو ڈاٹ کام، Planets.org/sun،الفضل ڈاٹ کام، بی بی سی اردو ڈاٹ کام سے مدد لی گئی)