Sunday , December 22 2024
enhindiurdu

جیسی مسلم خواتین کی تنظیم کی ضرورتHADASSAH

ڈاکٹر محمد قطب الدین
ماہر نفسیات‘ انڈیانا۔ امریکہ
شاہین باغ دہلی میں مسلم لڑکیوں اور خواتین نے جس ہمت‘ جرأت کے ساتھ اپنے حقوق کے تحفظ کیلئے تاریخ ساز احتجاجی مظاہرہ کیا‘ اس نے ہندوستانی مسلم خواتین سے متعلق تنگ نظر عناصر کے نظریات‘ تصورات کو بدل کر رکھ دیا۔ سردی، بارش، دھوپ میں شاہین باغ کی شیرینیوں نے جس طرح حالات کا مقابلہ کیا‘ اس نے ایوان اقتدار کو ہلاکر رکھ دیا۔ 85سالہ دادی ماں کے عزائم اور حوصلوں نے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو ایک نئی ہمت دی۔ ماؤں نے شیرخوار بچوں کو ایثار کردیا۔ اگر کووڈ کا پروپگنڈہ نہ ہوتا اور اس بہانے لاک ڈان نہ کیا جاتا تو یقینی طور پر ہندوستان کی تاریخ بدلی جاچکی ہوتی۔

عورتوں اور لڑکیوں کی ہمت نے مرد حضرات کو واقعی مرد بنایا۔ عورت ہی کی ہمت سے مرد ”مردبنتا ہے“ ورنہ عورتوں، بچوں کی خاطر اکثر مرد حضرات کمزور پڑجاتے ہیں۔ شاہین باغ کی تحریک آزاد ہندوستان کی تاریخ کا ایک نیا باب ہے۔ اس تحریک کو زندہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ ویسے ہندوستانی مسلم خواتین کی ایک ایسی تنظیم کی ضرورت ہے جو زندگی کے ہر شعبہ میں اپنی خدمات کے نقوش مرتب کرسکے۔ صیہونی تنظیم HADASSAH اس کی ایک مثال ہے۔ یہ تنظیم جو امریکی یہودیوں کی تنظیم ہے جسے 1912ء میں دو یہودی خواتین نے فلسطین میں مقیم یہودیوں کی فلاح وبہبود کے مقصد سے قائم کی تھی۔ ایک سو گیارہ برس سے اس تنظیم نے ہر دن ترقی کی ہے۔ آج صرف امریکہ میں اس کے تین لاکھ ممبرس ہیں۔ اس تنظیم HADASSAH نے پہلے حامہ خواتین کی دیکھ بھال‘ طبی نگہداشت کی غرض سے نرسنگ ٹریننگ شروع کی‘ پھر تعلیم پر توجہ دی‘ دولت مند امریکی صیہونیوں کی مالی تعاون سے انہوں نے تعلیمی سرگرمیوں میں شدت پیدا کی۔ صیہونی نظریات کو فروغ دیا۔ پانچ برس کے اندر یہ تنظیم اس قابل ہوگئی کہ اس نے یہودیوں کے لئے مطلوبہ اشیاء جو فلسطین میں دستیاب نہیں تھیں‘ دوسرے ممالک سے منگوانی شروع کی۔ سات برس کے عرصہ میں اس تنظیم نے امریکن زیونسٹ میڈیکل یونٹ قائم کرلیا(جسے ہادسا میڈیکل آگنائزیشن کا نام دیا گیا) جس میں 45ڈاکٹرس تعینات تھے۔ نرسنگ اسکول قائم کرلیا گیا۔غرض یہ کہ ہر سال ان کی سرگرمیوں اور خدمات کا دائرہ بڑھتا گیا۔ صحت پر خصوصی توجہ دینے کی وجہ سے عوام‘ عوام سے قریب ہوتے گئے اور انہیں اسرائیلی حکومت کے محکمہ تعلیم سے مدد ملنے لگی۔ حالانکہ اسرائیلی مملکت کا باقاعدہ اعلان نہیں ہوا تھا۔ بہرحال آج کی تاریخ میں ہادسا ایک بین الاقوامی تنظیم برائے خواتین بن چکی ہے۔ جس کے تحت ہاسپٹلس کا جال بچھا ہوا ہے۔ جس کی اپنی یونیورسٹی اور بے شمار کالجس ہیں۔ نوجوان ذہنوں کی آبیاری کے لئے باقاعدہ ٹریننگ پروگرام کروایا جاتا ہے۔ یہودیوں سے عالمی ہمدردی پیدا کرنے کے لئے اس تنظیم نے اہم رول ادا کیا۔ اس کی اپنی میگزین ہے جس کے تین لاکھ 85ہزار خریدار ہیں جبکہ فری آن لائن ایڈیشن کی وجہ سے لاکھوں یہودی اور غیریہودی ہادسا میگزین پڑھتے ہیں۔ اس نے بہترین رائٹرس کی خدمات حاصل کی ہیں جو صیہونی عزائم کا پرچار کرتے ہیں۔

قارئین کرام! یہاں اس تنظیم سے متعلق لکھنے کا مقصد اس کی تعریف کرنا نہیں ہے بلکہ یہ بتانا ہے کہ کس طرح یہودیوں نے مستقل مزاجی کے ساتھ 112برس سے ایک چھوٹی دورکنی تنظیم کو لاکھوں افراد کی تنظیم بنادیا ہے۔ چوں کہ اس کے تمام ارکان خواتین ہیں‘ اور یہ خواتین نئی نسلوں کی ذہنی تربیت کرتی ہے۔ اسرائیل سے ہمیں اختلاف ہے‘ اس کے جبر و استبداد کے خلاف ہم نے ہمیشہ آواز بلند کی ہے۔ قبلہ اول پر ان کے ناجائز قبضے کے خلاف ہم ہمیشہ سے احتجاج کرتے رہے ہیں۔ تاہم اس مٹھی بھر قوم نے جس طرح سے ترقی کی ہے‘ اس سے ہم سبق لے سکتے ہیں۔ سائنس و ٹکنالوجی، تعلیم، صحت میں اس کی ترقی اور ریسرچ ورک نے اس چھوٹے سے ناجائز ملک کو دنیا کی ضرورت بنادیا ہے۔ ہمیں بھی ہر شعبہ حیات میں ترقی کرنی ہے۔ ہم کب تک ماضی کی بھول بھولیوں میں بھٹکتے رہیں گے۔ گیا وقت لوٹتا نہیں‘ مگر ایک نئے مستقبل کی تعمیر ممکن ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ہماری قوم کی مائیں‘ بہنیں‘ بیٹیاں اسلام کے دائرہ میں رہتے ہوئے محاذ سنبھالیں۔ اپنی اولاد کی تربیت اس انداز سے کرے کہ ہر بچہ اچھا مسلمان، اچھا انسان ثابت ہو۔ جس کا وجود دوسروں کے لئے فائدہ مند ہو۔ بچپن سے ہی انہیں نڈر بنائیں اور خوف خدا پیدا کریں۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی تعلیم دیں۔ تاکہ یہ ایک مثالی معاشرہ کی تشکیل کرسکے۔ مسلم لڑکیوں میں صلاحیتوں کی کمی نہیں‘ تعلیم کے شعبے میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری بیٹیاں لڑکوں سے ہر اعتبار سے آگے ہیں۔ ہماری قوم کا المیہ یہ ہے کہ جہاں سختی کرنا ہوتا ہے وہاں نرم رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔ اور جہاں انہیں ان کی مثبت اور تعمیری صلاحیتوں کے اظہار کی آزادی ملنی چاہئے وہاں انہیں جکڑ دیا جاتا ہے۔ جب لڑکیوں کو ان کی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع نہیں ملتا تو وہ ذہنی انتشار اور خلفشار کا شکار ہوتے ہیں۔ اس کا اثر پہلے گھر پر اور پھر آہستہ آہستہ پورے معاشرہ پر پڑتا ہے۔ شریعت کے دائرہ میں انہیں رکھتے ہوئے ان پر اعتماد کرتے ہوئے اتنی آزادی ضرور دینی چاہئے کہ وہ اپنے خاندان کو مستحکم کرسکے۔ شاہین باغ میں ہماری ماؤں اور بیٹیوں نے یہ دکھادیا کہ کس طرح انہوں نے فرعون وقت سے مقابلہ کیا اور کس طرح سے انہوں نے اسلامی شعائر کی پاسداری کی۔ ایک طرف خواتین کو بااختیار بنانے کی ضرورت ہے تو دوسری طرف اسکول اور کالج کی سطح سے انہیں منظم کرتے ہوئے ان کی تعمیری صلاحیتوں کو معاشرہ کی تعمیر و ترقی میں استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ سچ ہے کہ بہت ساری مسلم جماعتوں‘ تنظیموں نے اپنی خواتین کی تنظیمیں بھی قائم کی ہیں اور وہ بلاشبہ بہت اچھا کام کررہی ہیں۔ اس میں مزید تنظیم اور سدھار کی ضرورت ہے۔دوسرے مذاہب نے ہمیشہ انسانیت کی بقاء کے نام پر اپنے مذہب کی تبلیغ کی ہے۔ اسلام سے بڑھ کر انسانیت نواز، انسانی حقوق کا محافظ کونسا مذہب ہوسکتا ہے۔ مگر جب ہم دوسروں سے فلاحی سرگرمیوں کے معاملے میں اپنا تقابل کرتے ہیں تو شرمندگی کا احساس ہوتا ہے۔ تعلیم، صحت دو ایسے شعبے ہیں‘ جس پر زیادہ سے زیادہ ہم کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ یہ ہر قوم کی ضرورت ہے۔ جب ہم اِن دو شعبوں پر توجہ دیں گے تو روزگار کے وسائل بھی پیدا ہوں گے اور اِن اداروں کو چلانے کے لئے خدا بھی مدد کرے گا اپنے بندوں کے ذریعہ۔

About Gawah News Desk

Check Also

ہندوستان میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کیلئے ذہن سازی۔غیر اخلاقی تعلقات سے پاک و صاف ماحول کی ضرورت

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے انتخابات اور منظورہ قراردادیںآل انڈیا مسلم پرسنل لا …

دینی تعلیم خانقاہوں اور درگاہوں کا اصل مشن

چشتی چمن میں گرمائی کلاسس کا اختتام۔ پیرنقشبندی کا خطابدورحاضر میں  امت محمدی ﷺکی نئی …

Leave a Reply