سچ تو مگر کہنے دو ! ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز
تلنگانہ میں الیکشن سرپر ہیں۔ سوائے بی جے پی کے دوسری جماعتیں مسلمانوں کو رجھانے، ان کی تائید حاصل کرنے کے لئے ہر حربہ اختیار کررہی ہے۔ انتخابی منشور جاری کئے جارہے ہیں جس میں بلند و بانگ دعوے کئے کئے جارہے ہیں۔ آسمان سے چاند ستارے توڑ کر لانے کے وعدے ہورہے ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ بی آر ایس کو دو مرتبہ ایک علاقائی جماعت کے طور پر آزمایا گیا‘ اب ایک قومی جماعت بی آر ایس کے طور پر آزمایا جاناچاہئے۔ بعض کا احساس ہے کہ دس برس میں بہت سارے وعدے ادھورے رہ گئے‘ خاص طور پر مسلمانوں کو تو بس جھنجھنا دے کر بہلادیا گیا۔ کسی نے مشورہ دیا کہ جس پارٹی کو دس برس سے اقتدار سے دور رکھا‘ کیوں نہ کانگریس کو ا یک موقع دیا جائے۔ بی آر ایس اور کانگریس دونوں ہی مسلمانوں کی تائید حاصل کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔ ان کے قائدین مختلف سیاسی، مذہبی اور غیر سیاسی جماعتوں کے نمائندوں سے ملاقات کررہے ہیں۔ اخبارات میں اشتہارات، خبروں کی شکل میں چھپنے لگے ہیں۔ سوشیل میڈیا پر زبردست مہمات چلائی جارہی ہیں۔ کانگریس اور بی آر ایس کے ایک دوسرے پر الزام تراشی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
اِن دنوں کے سی آر سے بار بار یہ سوال کیا جارہا ہے کہ وہ کاماریڈی کی بجائے حیدرآباد کے ایک حلقہ سے مقابلہ کیوں نہیں کرتے۔ فرقہ پرستی کے لئے جانے جاتے لیڈر کا سامنا کیوں نہیں کرتے۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ ایک چھوٹے سے انتخابی حلقہ کے امیدوار کو اتنی اہمیت کیوں دی جارہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ سیاسی جماعتیں اور ہم خود ایک حلقہ کے لی ڈر کو قومی لیڈر بناکر اس سے عوام بالخصوص مسلمانوں کو خوف زدہ کرناچاہتے ہیں۔ مسلمانوں کو گالی دینے والا، دھمکی آمیز لہجہ اختیار کرنے والا کبھی خطرناک نہیں ہوسکتا۔ جس کے دل میں ڈر خو ہو‘ وہ اس کو چھپانے کے لئے بڑی بڑی باتیں کرتا ہے۔ اور بدقسمتی سے ہمارے بے وقوف قسم کے صحافی اور مفاد پرست سیاستدان اسے بڑھا چڑھاکر پیش کرتے ہیں۔ بال ٹھاکرے ایک معمولی مراٹھا لیڈر تھا‘ اردو اخبارات نے اسے مراٹھا سمراٹ بنادیا۔ اس کی خبروں کو صفحہ اول کی زینت بناکر اسے ہیرو بنادیا۔ سب سے پہلے ممبئی کے ایک اردو ہفتہ وار کے ایڈیٹر نے اسے مسلم دشمن لیڈر کے طور پر پیش کیا تو ٹھاکرے نے اس ایڈیٹر کو جوشاید اب بھی زندہ ہے‘ ممبئی کے ایک گنجان آبادی والے علاقہ میں اخبار کے دفتر کے لئے جگہ فراہم کی۔
1980ء کی دہائی میں پرانے شہر میں بھی ایک بی جے پی کا لیڈر ہوا کرتا تھا‘ جسے اردو اخبارات نے ہی بڑھا چڑھاکر قومی سطح کا لیڈر بنادیا تھا۔ وہ خود کو ٹائیگر کہا کرتا تھا۔ آخر گمنامی میں اس کی موت ہوگئی۔
ہندوستان میں جس کسی کو لیڈر بننا ہو تو اسے مسلمانوں کے خلاف زہر الگلنا پڑتا ہے۔ مسلم دشمنی نے ہی تو بی جے پی کو اقتدار عطا کیا۔ جس لیڈر کا یہاں ذکر ہورہا ہے اس نے بھی مشہور ہونے، اپنی پارٹی میں اپنا مقام بنانے کے لئے سب سے آسان راستہ اختیار کیا۔ مسلم دشمنی‘ مسلمانوں کے خلاف بیان بازی، کچھ مجلسی لیڈرس کے خلاف زہر افشانی دیکھتے ہی دیکھتے وہ گلی کوچوں سے نکل کر شمالی ہند تک پہنچ گیا۔ اس کی شہرت کے ذمہ دار اردو اخبارات اور ہمارے قائدین ہیں۔ ارے صاحب! اہمیت نہ دو‘ نظرانداز کرو۔ یہ اپنی موت خود مرجائیں گے۔
سیاسی جماعتیں چاہے کتنا ہی سیکولر ہونے کا دعویٰ کریں صدفیصد سیکولر نہیں ہوسکتیں۔ اگر ہوجائیں تو اقتدار سے بے دخل کردی جاتی ہیں۔ کانگریس کو دیکھ لو‘ بی جے پی اگر ہارڈ ہندوتوا پر عمل پیرا ہے تو کانگریس نے سافٹ ہندوتوا کو اختیار کیا۔
کانگریس بلاشبہ ہندوستان کی قدیم ترین سیاسی جماعت ہے۔ مگر ملک کی تقسیم کی بھی برابر کی ذمہ دار ہے۔ پچاس ہزار سے زائد فسادات اس کے دور میں ہوئے۔ مسلمان اگر پسماندہ ترین قوم بن گئے تو وہ بھی کانگریس ہی کی مہربانی ہے۔ ہر شعبہ حیات میں ناانصافی اس کے دور میں ہوئی۔ بی جے پی نے اس میں شدت اختیار کی۔ جبکہ دوسری سیاسی جماعتوں نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ تلنگانہ کی تشکیل میں مسلمانوں کے رول کو فراموش یا نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ مگر دس برس میں مسلمانوں کو کیا ملا۔ ہاں ٹمریز اسکولس قائم ہوئے، مگر مسلمانوں کے اعلیٰ تعلیمی ادارے بند ہوئے۔ مسلمانوں کی فلاح و بہبود سے متعلق اداروں کا حال کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔
دلت بندھو اسکیم کے تحت اگر پسماندہ طبقات کی مالی و معاشی حالت کو بہتر بنایا جاتا ہے تو اس کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے۔ مگر مسلمانوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے سیکولر کردار سے انحراف کیا جاتا ہے۔ افسوس کہ اس پر کوئی بولنے کے لئے تیار نہیں۔ حال ہی میں بی آر ایس حکومت کو یاد دلایا گیا کہ تلنگانہ کی سرزمین شہید ہونے والے ویر سپاہی ستنوش کے ورثاء کو فوری ایکس گریشیا کی رقم اور سات سو گز زمین بنجارہ ہلز میں الاٹ کردی گئی۔ قابل تعریف بات ہے‘ مگر اس سرزمین سے تعلق رکھنے والے لانس نائک فیروز کی بیوہ یا ان کے ارکان خاندان پر توجہ نہیں کی گئی۔ کیوں صاحب! یہ امتیاز کیوں؟
بی آر ایس کو اپنا جائزہ لینا ہوگا۔ پارٹی سے تعلق رکھنے والے کسی بھی لیڈر میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں ہوگی کیوں کہ جس پارٹی میں کوئی مسلم لیڈر اپنی قوم کے مفاد کی بات کرتاہے تو اسے سائڈ لائن کردیا جاتا ہے۔
سیاسی اعتبار سے بھی تمام جماعتوں کا مسلمانوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک رہا ہے۔ وہ سات حلقے جہاں سے مجلسی امیدواروں کی کامیابی صد فیصد یقینی ہوا کرتی ہے اگر ان حلقوں سے بی آر ایس یا کانگریس مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیتی ہے تو کوئی احسان نہیں کرتی کیوں کہ ان حلقوں سے دوسری جماعتوں کے امیدواروں کی کامیابی ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ ممتاز ادیب اور تجزیہ نگار مکرم نیاز نے سوشیل میڈیا پر تلنگانہ کے 33میں سے ان دس اضلاع کی تفصیلات پیش کی ہیں جہاں مسلم آبادی کا تناسب دس فیصد سے زائد ہے اور ان اضلاع کے بعض انتخابی حلقوں سے مسلم امیدوار ذرا سی محنت کرے توکامیاب ہوسکتے ہیں۔ یہ دس اضلاع ہیں:
حیدرآباد (43.45%)، نظام آباد (18.52%)، سنگاریڈی (16.15%)، عادل آباد (12.58%)، رنگاریڈی (13.62%)، وقارآباد (12.94%)، نرمل (14.04%)، ہنمکنڈہ (10.23%) اور کاماریڈی (10.22%)۔
ان دس اضلاع میں 60 اسمبلی حلقے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہر حلقہ میں مسلم آبادی کا تناسب اتنا زیادہ نہں ی ہوتا تاہم ان 60میں سے کچھ نہ کچھ حلقوں پر تو مسلم امیداوروں کو کھڑا کیا جاسکتا ہے۔ مگر ا یسا نہیں ہوتا۔ مسلم ووٹرس کی مدد سے ا لیکشن تو جیتا جاتا ہے اور کوئی مسلم امیدوار میدان میں اترتا ہے تو پارٹی کے ارکان اسے نظر انداز کردیتے ہیں۔ ویسے اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ مسلم اکثریتی آبادی والے حلقوں سے تمام جماعتیں مسلم امیدواروں کو میدان میں اتارتی ہیں۔ آپس میں ووٹ تقسیم ہوتے ہیں۔ اور تیسرا امیدوار جو فرقہ پرست جماعت سے تعلق رکھتا ہے‘ آسانی سے نکل جاتا ہے۔ بہرحال! مسلمانوں کے لئے مسائل ہی مسائل ہیں۔ انہیں حل کرنے کے لئے کوئی آگے بڑھنے کے لئے تیار نہیں۔
تلنگانہ کے تیسرے الیکشن کون سی پارٹی جیتے گی؟ وقت ہی بتائے گا۔ ویسے مقابلہ سخت ہے‘ جب کوئی سیاسی جماعت مضبوط ہوتی ہے اسے کسی بیساکھی کی ضرورت نہیں ہوتی تو وہ عوامی مسائل سے بے پرواہ ہوجاتی ہے۔ لیڈرشپ ڈکٹیٹرشپ میں بدل جاتی ہے۔ اس لئے عوام کو چاہئے کہ ایسی حکومت تشکیل دینے میں اپنا اہم رول ادا کریں‘ جو پانچ برس تک جاگتی رہے، چوکس رہے، ہمیشہ عوام کی خدمات انجام دینے کے لئے تیار رہے۔ ان کے مسائل ایسے ہی ہوں گے وہ انجمنیں، ادارے اور جماعتیں جو مسلمانوں کے مسائل حل کرنے کیلئے ارباب اقتدار یا اقتدار کے خواب دیکھنے واولں سے بات چیت کرتی ہیں‘ تو صرف اپنے مفادات کو مدنظر نہ رکھیں بلکہ قوم کا بھی کچھ نہ کچھ خیال رکھیں۔ مفادات وقتی ہوتے ہیں‘ اور قوم کا نقصان ہمہ وقتی ہوتا ہے۔ اگر اس کی ذمہ دار یہ جماعتیں نمائندے، انجمنیں اور ادارے ہوں تو اس کی سزا بھی انہیں ملتی ہے۔ انسان تو نہیں قدرت کے ہاتھوں ملتی ہے۔
لاکھ کہتے رہے ظلمت کو نہ ظلمت لکھنا
ہم نے سیکھانہیں پیارے بااجازت لکھنا