سچ تو مگر کہنے دو !
ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز
بدیع الزماں خاور کی خوبصورت غزل کے دو شعر…
تھوڑا سا نیچے آئے تو اس کو ہم بھی چھو لیں
بتی جیسا یہ جو اوپر جلا ہوا ہے چاند
سچ کیا ہے یہ چاند پہ جا کر کاش اک دن میں دیکھوں
سب بتلاتے ہیں پتھر کا بنا ہوا ہے چاند
احمد شہزاد کا یہ شعر بھی اتنا ہی خوبصورت ہے:
یہ چاند ہی تیری جھولی میں آپڑے شاید
زمین پہ بیٹھ کمند آسمان پہ ڈالے جا
چاند…. خوبصورتی کی کسوٹی،
چاندسا چہرہ، چاند سی دلہن، چاند سا بیٹا اور کبھی چاند سے ماما کا رشتہ….
کیا دور تھا وہ بھی جب مائیں پانی بھری لگن میں چاند کا عکس دکھاکر بچوں کا دل بہلاتی تھیں اور بچے اس عکس کو پکڑنے کی جدوجہد کرتے۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ چاند کو حاصل کرناہمیشہ سے انسان کی آرزو رہی ہے۔
امریکہ نے20جولائی 1969ء کو اپولو11 کو کامیابی سے چاند کی سطح پر اُتارا اور نیل آرم اسٹرانگ چاند کی سرزمین پر چہل قدمی کرنے والے پہلے خلاباز بن گئے تھے۔ 1968 سے 1972ء کے درمیان امریکہ نے 9مرتبہ خلابازوں کے ساتھ اپنی سٹیلائٹ چاند پر بھیجے۔ 1972ء کے بعد سے ا س کا کوئی بھی مشن چاند کے لئے نہیں رہا۔ البتہ NASA نے ARTEMIS کو 2024ء میں چاند پر بھیجنے کا ارادہ کیا ہے۔ جس سے آگے چل کر ہندوستان بھی وابستہ ہونے کا ارادہ رکھتاہے۔
ہندوستان نے اپنے خلابازوں کے ساتھ گگنیان کو بھیجا تھا جو ہر روز 400کیلو میٹر کا چکر لگاکر تین دن بعد حفاظت سے زمین پر واپس ہوگئے اور چندراین۔3 نے 23/اگست 2023 کی شام 6بج کر 4منٹ پر چاند کی سطح پر کامیابی کے ساتھ لینڈ کرنے کے بعد یہ انکشاف کردیا کہ چاند پر صرف پتھر ہی نہیں‘ پانی بھی ہے۔ حالانکہ گیلیلیو نے 1609ء میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ چاند پر آتش فشاں پہاڑ تو ہیں مگر پانی اور ہوا نہیں ہے۔
چندراین۔ 3 کی کامیابی سے ہندوستان دنیا کا پہلا ملک بن گیا‘ جس نے چاند کے قطب جنوبی South Polar پر لینڈ کیا۔ ابھی تک کوئی اور ملک چاند کے اس حصہ پر اپنی خلائی مشن اُتارنے میں کامیاب نہ ہوسکا۔ امریکہ نے 2020ء میں اس کا منصوبہ بنایا ضرور تھا مگر کامیابی پہلے ہندوستان کو مل گئی۔ 140کروڑ ہندوستانیوں کا سینہ 56انچ سے زیادہ پھول گیا۔ واقعی یہ ایک تاریخ ساز لمحہ تھا۔ ایک ایسا ملک جو زمینی جھگڑوں پر قابو نہ پاسکا‘ ذاتیات کی تفریق نہ مٹا سکا، توہم پرستی آج بھی تہذیب و معاشرت کا حصہ ہے۔ اس ملک نے چاند کو تسخیر کرلیا۔ اسپیس سائنس اینڈ ٹکنالوجی کے ترقیاتی دور کا ایک نئے سفر کا یہاں سے آغاز ہوا ہے۔
چندراین۔3 کی کامیابی سے پہلے ہندوستان نے ISRO کے تحت 668 خلائی پراجکٹس کئے ہیں۔ ان میں تین NANO Satelite اور ایک مائیکرو سٹیلائٹ پروگرام شامل ہے۔
19/اپریل1975ء کو اس نے سوویت کاسموس 3M راکٹ کے ذریعہ اپنا پہلے سٹیلائٹ آریہ بھٹ کا کامیاب تجربہ کیا تھا۔ تب سے لے کر اب تک اس نے مختلف محاذوں پر نت نئے تجربات کئے۔ اگرچہ کہ چندراین۔2 لمحہ آخر میں ناکام رہے‘ اس کے باوجود ہندوستانی سائنسدان مایوس نہیں ہوئے۔ انہوں نے پی ویرا تھوول پراجکٹ ڈائرکٹر کی قیادت میں چندراین۔3 پراجکٹ پرکام شروع کیا۔ چیرمین اسرو ایس سومناتھ کی نگرانی میں مسلسل کام کرتے ہوئے آخرکار کامیابی کی منزل کو پالیا۔ 615کروڑ کی لاگت کے اس پراجکٹ نے ترقی یافتہ ممالک کو حیران کرکے رکھ دیا ہے۔ اس کامیابی نے ہندوستان کے وقار کو زبردست بلند کردیا ہے۔
یوں تو چاند کے قطب جنوبی علاقہ میں لینڈ کرنے والا ہندوستان پہلا ملک ہے تاہم امریکہ، روس اور چین کے بعد یہ چوتھا ملک ہے جس نے چاند کی تسخیر کی۔ 21/اگست کو روس کی ناکامی کے بعد ہندوستانیوں میں بھی ایک انجانا خوف اور اندیشہ پیدا ہوگیا تھا کہ آیا یہ مشن کامیاب ہوگا یا نہیں۔ وزیر اعظم مسٹر نریندر مودی جوہانسبرگ (ساؤتھ افریقہ) کے دورہ پر ہیں‘ ا نہوں نے چندراین۔3 کی کامیابی کے فوری بعد ہندوستانی عوام کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ اور بھی آگے جائیں گے۔ چندراین۔3 کی کامیابی کا مرکزی حکومت کو تو کریڈٹ ملے گا ہی ساتھ ہی 2024ء کے الیکشن میں بی جے پی اس کا استعمال بھی کرے گی۔
چندراین۔3 کی کامیابی سے ہندوستان کی اسپیس انڈسٹری کو زبردست فروغ حاصل ہوگا۔ چاند کی سطح پر پانی‘ برف کی موجودگی کا پتہ چلایا جائے گا۔ ٹکنالوجی کے فروغ کے ساتھ ساتھ آنے والے برسوں میں ہندوستان اربوں ڈالرس حاصل کرے گا۔ کیوں کہ یہ ہندوستان لونار اکانومی میں لیڈر کا موقف حاصل کرچکا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق چندراین۔3 کی کامیابی کے بعد توقع ہے کہ ہندوستان NASA کی تقلید کرے‘ جس نے کئی ایسے پراڈکٹس ایجاد کرلئے ہیں جو عمر کے اثرات کو روک سکتے ہیں‘ جو اسمارٹ فونس سے لے کر واٹر ”پیوروفائر“ میں استعمال ہونے والے اجزاء بھی ہیں۔
اسرو کے اسپیس پروگرام کے تحت سرجری‘ مصنوعی اعضاء، فوڈ سیفٹی، موسمیات کی پیش قیاسی، مواصلات، روبوٹکس، جیولوجی، فائر پروف اجزاء، شہری ہوابازی اور دفاع میں استعمال ہونے والی اشیاء شامل ہیں۔
چندراین۔3 کی کامیابی کے بعد نوجوان نسل اسپیس ٹکنالوجی کی طرف راغب ہوگی۔ چاند کی تسخیر کے بعد ہندوستان توقع ہے کہ فوجی و دفاعی شعبہ میں اپنی طاقت اور توانائی میں اضافہ کرے گا۔ 2019ء میں اس نے دیسی ساختہ بیالسٹک میزائیل سے تین سو کلومیٹر کی بلندی پر اپنے ہی ایک سٹیلائٹ کو نشانہ بناکر ناکارہ بنادیا تھا۔ اس طرح چاند پر قدم رکھنے کے بعد مستقبل میں چاند کی سطح پر ہندوستان اپنی دفاعی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ترقی یافتہ ممالک سے مقابلہ کا اہل ہوسکتا ہے۔امریکہ نے تو چاند کی سرزمین پر باقاعدہ ایک کالونی کا تصور بھی پیش کیا اور ایک اطلاع کے مطابق باقاعدہ چاند کے سفر کے لئے ارب پتی تاجروں نے اڈوانس بکنگ بھی کی ہے‘ یہ اور بات ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق چاند پر رہنے کیلئے سالانہ 35بلین ڈالرس کے مصارف ہوتے ہیں۔ دولت مند اور خواہش مند افراد کی کمی نہیں جو چاند کا سفر کرنا چاہتے ہیں۔ امریکہ، چین، روس کے بعد ہندوستان کی کامیابی کے بعد شاطر عناصر چاند پر ریئل اسٹیٹ کا کاروبار زمین پر بیٹھ کر کرنے کے لئے کم نہیں‘ یہ اور بات ہے کہ چاند پر رہنا اس لئے ممکن نہیں کہ اگر وہاں پانی ہے بھی تو استعمال کے قابل نہیں ہے۔ وہاں کوئی آب و ہوا نہیں‘ وہاں کبھی درجہ حرارت 123ڈگری سیلسیس تو کبھی -223سنٹی گریڈ ہوتی ہے۔ زمین سے 2لاکھ 40ہزار میل کے فاصلے پر واقع اس چاند پر زندگی کے کوئی آثار نہیں۔ زمین سے چاند تک پانی پہنچانا بھی اتنا آسان نہیں۔وہاں بجلی کا بھی کوئی انتظام نہیں۔ البتہ سورج کی روشنی سے سمشی توانائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ NASA نے وہاں کے موسم کو زمین کے موسم سے ہم آہنگ کرنے کے پراجکٹ پر کام شروع کیا ہے اور قابل تجدید توانائی پر بھی ریسرچ کی ہے۔ وہاں کی آب و ہوا جس میں سانس لینا مشکل ہے‘ بقول نیل آرم اسٹرانگ چاند کی سطح پر سانس لینے سے گلے میں خراش پیدا ہورہی تھی۔ اس کے علاوہ غذائی اشیاء کی پیداوار سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ریڈیشن یا تابکاری سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ لہٰذاچاند پر قدم رکھنا عارضی طور پر کسی بھی ملک کا جھنڈا لہرادینا ممکن ہے مگر وہاں رہنے کی صرف آرزو کی جاسکتی ہے‘ خواب دیکھا جاسکتا ہے۔ عملی طور پر ناممکنات میں سے ہے۔
چندراین۔3کی کامیابی پر بلاشبہ ہم سب کو بجاطور پر فخر ہے اور ہونا بھی چاہئے۔ نیشنل انسٹی ٹیوشنل رینکنگ فریم ورک NIRF نے ہندوستان کو خلائی میدان میں اس کے پرفارمنس کی بنیاد پر 48واں رینک دیا ہے۔ اور ہندوستان نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ اسپیس ٹکنالوجی کے فروغ میں دلچسپی لی ہے۔ حکومت ہند نے بجٹ 2023ء میں اسپیس سائنس کے لئے 12ہزار 543 کروڑ روپئے کا بجٹ مختص کیا ہے۔ یقینا ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوکر خوشی محسوس ہوتی ہے۔ تاہم اب بھی 43ہزار گاؤں کے 23ملین خاندان بجلی کی سہولت سے محروم ہیں یہاں موبائل سرویس نہیں ہے۔ 17فیصد دیہی آبادی پینے کے پانی کے لئے ترستی ہے۔ 14سے 18سال کی عمر کے 25فیصد نوجوان یعنی88 ملین جن کا تعلق دیہی علاقوں سے ہے اپنی زبان میں پڑھنے لکھنے کی صلاحیت سے محروم ہے۔ترقی یافتہ علاقوں میں جہاں ہر قسم کی سہولت ہے وہاں آہستہ آہستہ بھائی چارگی، مذہبی رواداری ختم ہوتی جارہی ہے۔یہ ہمارے ترقی یافتہ ملک کا وہ حصہ ہے جو تاریکی میں ہے جس پر روشنی ڈالنے کی کبھی کوشش نہیں کی گئی۔ امید ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی چاند اور مریخ اسکے بعد سورج کی طرف بھی دیکھیں گے۔ اس سے پہلے ایک نظر زمین پر ڈال سکیں تو مناسب ہوگا۔ حقائق کا اندازہ ہوگا۔ اس وقت بیروزگاری اور فرقہ پرستی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ چاند کی تسخیر تو ہم کرچکے‘ زمین پر گرفت آہستہ آہستہ کمزور ہونے لگی ہے۔ اس پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔